Wednesday, June 30, 2010

تمنا نہیں رکھتا


وہ شخص جب سے میری تمنا نہیں رکھتا
دل کسی اور کو چاہنے کا حوصلہ نہیں رکھتا

وہ کیا بچھڑا کہ ہر کوئی پوچھتا ہے اُسی کا
یوں لگتا ہے واجد میں جیسے چہرہ نہیں رکھتا

Saturday, June 26, 2010

رکھتا ہے


وہ میرے دل پہ بڑا اختیار رکھتا ہے
یہ اعتراف مجھے سوگوار رکھتا ہے

Tuesday, June 22, 2010

زندگی یوں تھی


زندگی یوں تھی کہ جینے کا بہانہ تو تھا
ہم فقط زیب حکایت تھے فسانہ تو تھا

ہم نے جس جس کو بھی چاہا تیرے ہجراں میں وہ لوگ
آتے جاتے ہوئے موسم تھے زمانہ تو تھا

اب کے کچھ دل ہہی نہ مانا کہ پلٹ کر آتے
ورنہ ہم دربدروں کا ٹھکانہ تو تھا

یارواغیار کے ہاتھوں میں کمانیں تھیں فراز
اور سب دیکھ رہے تھے کہ نشانہ تو تھا