Friday, May 7, 2010

نہیں سمجھا



وہ میرے خیالات کی روانی نہیں سمجھا
وہ میرے جذبات کی کہانی نہیں سمجھا

کیسے لکھ دوں اُسے خط میں وہ باتیں
جو باتیں واجد وہ زبانی نہیں سمجھا

nahi hai

کب اُس کو میرا احساس نہیں ہے
یہ اور بات وہ میرے پاس نہیں ہے

زندگی کبھی کبھی بہت کچھ دیتی ہے
زندگی فقط حسرت و یاس نہیں ہے

تجھ سے بچھڑ کے آگیا غم کو سہنا
دل میرا اب تیرے بن اُداس نہیں ہے

وہ مجھے چاہتا ہے دل و جان سے واجد
یقین ہے میرا یہ قیاس نہیں ہے

احسان کئے جاتا ہے

chal nikalti Hai


کوئی بات ہو تیری بات چل نکلتی ہے
ہماری بات ہر کسی کے ساتھ چل نکلتی ہے

کرنی ہوتیں ہیں تجھ سے بہت سی باتیں لیکن
دیکھتے ہی دیکھتے کمبخت رات چل نکلتی ہے

کر بھی سکتے ہیں




تیرے لہجے کی تخلی کا شکوہ کر بھی سکتے ہیں
میری جاں ہم حد ادب سے گزر بھی سکتے ہیں

آج کل کی دوستی پہ اتنا نہ اِترا واجد
جو دریا چڑھے ہوں وہ اُتر بھی سکتے ہیں

محبت کے آداب


ابھی کہاں اُسے محبت کے آداب آتے ہیں
ابھی تو سمجھانے اُسے احباب آتے ہیں

کس طرح کرلوں یقیں کہ وہ کرتا ہے محبت مجھ سے
اِس عمر میں تو سبھی کوواجد خواب آتے ہیں

اچھا ہے



میرے خلوص کا یہ انعام اچھا ہے
تیرے لب پہ کسی کا نام اچھا ہے

ہوئے برباد صرف تمہیں پانے کے لئے
ہوئے رسواتیرے پیچھے الزام اچھا ہے

گرفتار ہوا ہوں



میں اپنی محبت میں گرفتار ہوا ہوں
اِس درد کی قسمت میں دوا کوئی نہیں ہے

Thursday, May 6, 2010

چلا گیا


محبت کا فسانہ دور تک چلا گیا

دیکھو دیوانہ دور تک چلا گیا

تیرا گھر بھی اب وہاں نہیں رہا
اپنا بھی ٹھکانہ دور تک چلا گیا

یہ محبت ہی تو ہے کے شمع کی خاطر
دیکھئے ذرا پروانہ دور تک چلا گیا

ہم جہاں تھے وہیں ہیں اب بھی واجد
وقت اور زمانہ دور تک چلا گیا

بہت تھا


خود پہ جس کو بھروسہ بھی تھا

میری طرح وہ تنہا بھی بہت تھا

اُس کی باتوں میں کہیں میرا ذکر نہیں
جس کو میں نے سوچا بھی بہت تھا


اُسی نے پہنچائی میرے اعتبار کو ٹھیس

جس شخص پہ مجھے بھروسہ بھی بہت تھا


سوچتا ہوں کس طرح اُس نے خود کو سنبھالا
ورنہ بچھڑنے کا تو اُسے صدمہ بھی بہت تھا

کیوں نہ کھاتا وہ ہر اِک سے فریب واجد
وہ شخص لہجے کا میٹھا بھی بہت تھا

سب بھول چکا ہوں


رسم وفا خلوص و مہر سب بھول چکا ہوں

غیروں کی عنایت اپنوں کا قہر سب بھول چکا ہوں

اتنا یاد ہے اِس میں شامل تھی اُس کی بھی مرضی

کس نے کیا تھا مجھے در بدر سب بھول چکا ہوں

کسی کی محبت نے مجھے بھی شاداب کیا تھا کبھی

وہ حسیں دن رنگین شام و سحر سب بھول چکا ہوں

اب تو خود سے بھی بات کرتے ہوئے جی ڈرتا ہے

ہوتی تھی کسی سے گفتگو آٹھوں پہر سب بھول چکا ہوں

Tera Khayal


روز آجاتا ہے میرے دل کو تسلی دینے
تم سے تو اے دشمن جاں تیرا خیال اچھا ہے

اپنی محبت


اپنی محبت کا صلہ نہیں مانگتا
میں تمام عمر کا گلہ نہیں مانگتا

اِک تم بن جاؤ ہمسفر میرے
میں رہبر و قافلہ نہیں مانگتا

یوں تو میرے لب پہ کوئی دُعا نہیں آتی
تیرا چہرہ ہو سامنے تو میں رب سے کیا کیا نہیں مانگتا