Tuesday, September 21, 2010

مجھے اپنے ضبط پہ ناز تھا

مجھے اپنے ضبط پہ ناز تھا سربزم رات یہ کیا ہوا

میری آنکھ کیسے چھلک گئی مجھے رنج ہے یہ بُرا ہوا

مری زندگی کے چراغ کا ، یہ مزاج کوئی نیا نہیں
ابھی روشنی ، ابھی تیرگی ، نہ جلا ہوا ، نہ بُجھا ہوا

مجھے جو بھی دشمنِ جاں ملا ، وہی پختہ کارجفا ملا
نہ کسی کی ضرب غلط پڑی نہ کسی کا تیر خطا ہوا

مجھے آپ کیوں نہ سمجھ سکے یہ خود اپنے دل ہی سےپوچھئے
مری داستانِ حیات کا تو ورق ورق ہے کُھلا ہوا

جو نظر بچا کے گزر گئے مرے سامنے سے ابھی ابھی
یہ مرے ہی شہر کے لوگ تھے ، مرے گھر سے گھر ہے ملا ہوا

ہمیں اِس کا کوئی بھی حق نہیں کہ شریک بزمِ خلوص ہوں
نہ ہمارے پاس نقاب ہے نہ کچھ آستیں میں چُھپا ہوا

مجھے اک گلی میں پڑا ہوا ، کسی بدنصیب کا خط ملا
کہیں خونِ دل سے لکھا ہوا ، کہیں آنسوئوں سے مِٹا ہوا

مجھے ہم سفر بھی ملا کوئی تو شکستہ حال مری طرح
کئی منزلوں کا تھکا ہوا ، کہیں کہیں راستے میں لُٹا ہوا

ہمیں اپنے گھر سے چلے ہوئے ، سرراہ عمر گزر گئی
کوئی جستجو کا صلہ ملا ، نہ سفرکا حق ہی ادا ہوا

نہیں کہتے

شکستِ ظرف کو پنداررندانہ نہیں کہتے
جو مانگے سے ملے ہم اُس کو پیمانہ نہیں کہتے

جہاں ساقی کے پائے ناز پر سجدہ ضروری ہو
وہ بُت خانہ ہے ، اُس کو رند میخانہ نہیں کہتے

جنوں کی شرطِ اول ضبط ہے اور ضبط مشکل ہے
جو دامن چاک کر لے اُس کو دیوانہ نہیں کہتے

جو ہوجائے کسی کا مستقل، بے شرکتِ غیرے
وہ دل کعبہ ہے ، اُس دل کو صنم خانہ نہیں کہتے

نہایت شکریہ اِس پُرسسشِ احوال کا لیکن
ہمیں عادت نہیں ، ہم اپنا افسانہ نہیں کہتے

جہاں ہر وقت اِک محفل سجی ہو تیری یادوں کی
اُسے عشرت کدہ کہتے ہیں غم خانہ نہیں کہتے

غرض کچھ بھی ہو ہم کو یاد تو رکھتا ہے ہر لحظہ
عدو کو اپنے ہم اقبال ! بیگانہ نہیں کہتے

بھی نہیں

روشنی مجھ سے گریزاں ہے تو شکوہ بھی نہیں
میرے غم خانے میں کچھ ایسا اندھیرا بھی نہیں

پُرسسشِ حال کی فرصت تمہیں ممکن ہے نہ ہو
پُرسسشِ حال طبیعت کو گوارا بھی نہیں

یوں سر راہ ملاقات ہوئی ہے اکثر
تم نے دیکھا بھی نہیں ، ہم نے پکارا بھی نہیں

عرضِ احوال کی عادت بھی نہیں ہے ہم کو
اور حالات کا شاید یہ تقاضا بھی نہیں

بے نیازانہ گزر جائے گزرنے والا
میرے پندار کو اب شوقِ تماشہ بھی نہیں

ہاتھ پھیلائوں میں عیسٰی نفسوں کے آگے
درد پہلو میں مرے ہے مگر اِتنا بھی نہیں

اِک شکن ماتھے پہ دیکھی تھی تمہارے ہم نے
پھر کبھی آنکھ اُٹھا کر تمہیں دیکھا بھی نہیں

آخری بار ہنسی آئی تھی کب ، یاد نہیں
اور پھر آئے ہنسی اِس کی تمنا بھی نہیں

میرے حالات نہ بدلے تو نہ بدلیں اقبال
مجھ کو حالات پہ کچھ ایسا بھروسہ بھی نہیں

کچھ ایسے زخم بھی ہم

کچھ ایسے زخم بھی ہم دل پہ کھائے بیٹھے ہیں
جو چارہ سازوں کی زد سے بچائے بیٹھے ہیں

نہ جانے کون سا آنسو کسی سے کیا کہہ دے
ہم اس خیال سے نظریں جھکائے بیٹھے ہیں

نہ خوفِ بادِ مخالف، نہ انتظارِ سحر
ہم اپنے گھر کے دِیے خود بُجھائے بیٹھے ہیں

ہمارا ذوق جُدا ، وقت کا مزاج جُدا
ہم ایک گوشے میں خود کو چُھپائے بیٹھے ہیں

ہمارے دل میں ہیں محفوظ چند تاج محل
جنھیں ہم اپنا مقدر بنائے بیٹھے ہیں

زمانہ دیکھا ہے ہم نے ہماری قدر کرو
ہم اپنی آنکھوں میں دنیا بسائے بیٹھے ہیں

ہم اپنی ذات سے اِک عہد ہیں مگر اقبال
ہم اپنے آپ کو قصداً بُھلائے بیٹھے ہیں

کرتے رہے

اِک خطا ہم ازرہِ سادہ دلی کرتے رہے
ہر تبسم پر قیاسِ دوستی کرتے رہے

ایسے لوگوں سے بھی ہم مِلتے رہے دل کھول کر
جو وفا کے نام پر سوداگری کرتے رہے

خود اندھیروں میں بسر کرتے رہے ہم زندگی
دوسروں کے گھر میں لیکن روشنی کرتے رہے

سجدہ ریزی پائے ساقی پر کبھی ہم نے نہ کی
اپنے اشکوں سے علاجِ تشنگی کرتے رہے

اپنے ہاتھوں آرزوئوں کا گلا گھونٹا کئے
زندہ رہنے کے لئے ہم خود کُشی کرتے رہے

ہر طرف جلتے رہے بُجھتے رہے جھوٹے چراغ
اور ہم سامانِ جشنِ تیرگی کرتے رہے

حالِ دل کہہ دیں کسی ، بارہا سوچا مگر
اِس اردے کو ہمیشہ ملتوی کرتے رہے

خود کو دیتے بھی رہے ترکِ تعلق کا فریب
اور درپردہ کسی کو یاد بھی کرتے رہے

اِس طرح اقبال گزری ہے ہماری زندگی
زہر غم پیتے رہے اور شاعری کرتے رہے

نہ ہوا

کوئی نالہ یہاں رَسا نہ ہوا
اشک بھی حرفِ مدّعا نہ ہوا

تلخی درد ہی مقدر تھی
جام عشرت ہمیں عطا نہ ہوا

ماہتبابی نگاہوں والوں سے
دل کے داغوں کا سامانہ نہ ہوا

آپ رسمِ جفا کے قائل ہیں
میں اسیر غم وفا نہ ہوا

وہ شہنشاہ نہیں بھکاری ہے
جو فقیروں کا آسرا نہ ہوا

رہزن عقل و ہوش دیوانہ
عشق میں کوئی رہنما نہ ہوا

ڈوبنے کا خیال تھا ساغیر
ہائے ساحل پہ ناخدا نہ ہوا