Tuesday, September 21, 2010

کچھ ایسے زخم بھی ہم

کچھ ایسے زخم بھی ہم دل پہ کھائے بیٹھے ہیں
جو چارہ سازوں کی زد سے بچائے بیٹھے ہیں

نہ جانے کون سا آنسو کسی سے کیا کہہ دے
ہم اس خیال سے نظریں جھکائے بیٹھے ہیں

نہ خوفِ بادِ مخالف، نہ انتظارِ سحر
ہم اپنے گھر کے دِیے خود بُجھائے بیٹھے ہیں

ہمارا ذوق جُدا ، وقت کا مزاج جُدا
ہم ایک گوشے میں خود کو چُھپائے بیٹھے ہیں

ہمارے دل میں ہیں محفوظ چند تاج محل
جنھیں ہم اپنا مقدر بنائے بیٹھے ہیں

زمانہ دیکھا ہے ہم نے ہماری قدر کرو
ہم اپنی آنکھوں میں دنیا بسائے بیٹھے ہیں

ہم اپنی ذات سے اِک عہد ہیں مگر اقبال
ہم اپنے آپ کو قصداً بُھلائے بیٹھے ہیں

No comments:

Post a Comment