Tuesday, September 21, 2010

نہیں کہتے

شکستِ ظرف کو پنداررندانہ نہیں کہتے
جو مانگے سے ملے ہم اُس کو پیمانہ نہیں کہتے

جہاں ساقی کے پائے ناز پر سجدہ ضروری ہو
وہ بُت خانہ ہے ، اُس کو رند میخانہ نہیں کہتے

جنوں کی شرطِ اول ضبط ہے اور ضبط مشکل ہے
جو دامن چاک کر لے اُس کو دیوانہ نہیں کہتے

جو ہوجائے کسی کا مستقل، بے شرکتِ غیرے
وہ دل کعبہ ہے ، اُس دل کو صنم خانہ نہیں کہتے

نہایت شکریہ اِس پُرسسشِ احوال کا لیکن
ہمیں عادت نہیں ، ہم اپنا افسانہ نہیں کہتے

جہاں ہر وقت اِک محفل سجی ہو تیری یادوں کی
اُسے عشرت کدہ کہتے ہیں غم خانہ نہیں کہتے

غرض کچھ بھی ہو ہم کو یاد تو رکھتا ہے ہر لحظہ
عدو کو اپنے ہم اقبال ! بیگانہ نہیں کہتے

No comments:

Post a Comment