Tuesday, September 21, 2010

کرتے رہے

اِک خطا ہم ازرہِ سادہ دلی کرتے رہے
ہر تبسم پر قیاسِ دوستی کرتے رہے

ایسے لوگوں سے بھی ہم مِلتے رہے دل کھول کر
جو وفا کے نام پر سوداگری کرتے رہے

خود اندھیروں میں بسر کرتے رہے ہم زندگی
دوسروں کے گھر میں لیکن روشنی کرتے رہے

سجدہ ریزی پائے ساقی پر کبھی ہم نے نہ کی
اپنے اشکوں سے علاجِ تشنگی کرتے رہے

اپنے ہاتھوں آرزوئوں کا گلا گھونٹا کئے
زندہ رہنے کے لئے ہم خود کُشی کرتے رہے

ہر طرف جلتے رہے بُجھتے رہے جھوٹے چراغ
اور ہم سامانِ جشنِ تیرگی کرتے رہے

حالِ دل کہہ دیں کسی ، بارہا سوچا مگر
اِس اردے کو ہمیشہ ملتوی کرتے رہے

خود کو دیتے بھی رہے ترکِ تعلق کا فریب
اور درپردہ کسی کو یاد بھی کرتے رہے

اِس طرح اقبال گزری ہے ہماری زندگی
زہر غم پیتے رہے اور شاعری کرتے رہے

No comments:

Post a Comment