Monday, November 1, 2010

اُسے بھول جا

کہاں آکے رُکنے تھے راستے! کہاں موڑ تھا! اُسے بھول جا
وہ جو مل گیا اُسے یاد رکھ، جو نہیں ملا، اُسے بھول جا

وہ ترے نصیب کی بارشیں کسی اور چھت پر برس گئیں
دل بے خبر مری بات سن ، اُسے بھول ، اُسے بھول جا

میں تو گم تھا تیرے ہی دھیان میں ، تری آس، تیرے گمان میں
صبا کہہ گئی مرے کان میں ، مرے ساتھ آ، اُسے بھول جا

کسی آنکھ میں نہیں اشکِ غم ، ترے بعد کچھ بھی نہیں ہے کم
تجھے زندگی نے بھلا دیا ، تو بھی مسکرا، اُسے بھول جا

کیوں اٹا ہوا ہے غبار میں ، غم زندگی کے فشار میں
وہ جو درج تھا ترے بخت میں ، سو وہ ہوگیا ، اُسے بھول جا

نہ وہ آنکھ ہی تری آنکھ تھی ، نہ وہ خواب ہی ترا خواب تھا
دل منتظر تو یہ کس لئے ، ترا جاگنا ، اُسے بھول جا

جو بساطِ جاں ہی اُلٹ گیا ، وہ جو راستے میں پلٹ گیا
اُسے روکنے سے حصول کیا ، اُسے مت بُلا ، اُسے بھول جا

No comments:

Post a Comment