Saturday, November 6, 2010

کدھر گیا وہ

گئے دِنوں کا سُراغ لےکر کدھر سے آیا کدھر گیا وہ

عجیب مانوس اجنبی تھا مجھے تو حیران کر گیا وہ

نہ اب وہ یادوں کا چڑھتا دریا ،نہ فرصتوں کی اُداس برکھا

یونہی ذرا سی کسک ہے دل میں جو زخم گہرا تھا بھر گیا وہ

وہ ہجر کی رات کا ستارہ ، وہ ہم نفس ہم سخن ہمارا

صدا رہے اُس کا نام پیارا سُنا ہے کل رات مَر گیا وہ

وہ رات کا بے نوا مسافر وہ تیرا شاعر وہ تیرا ناصر

تیری گلی تک تو ہم نے دیکھاتھا پھر نہ جانے کدھر گیا وہ

No comments:

Post a Comment