بڑے دِنوں کا اُدھار لے کر کدھر سے آیا کدھرگیا وہ
عجیب منحوس اجنبی تھا مجھے پریشان کر گیا وہ
نہ اب وہ راوی کا چڑھتا دریا ، نہ موسموں کی وہ تیز برکھا
یونہی ذراسی نمی ہے گھر میں جو پینٹ تھا سب اُتر گیا وہ
وہ ہجر کی رات کا ہے گوہر، پر ایک مظلو م سا ہے شوہر
بچا رہے مار سے بیچارہ سُنا ہے کل لیٹ گھرگیا وہ
بدنام مُنی کے دادا ابو ہمارے والد سے کہہ رہے تھے
تیری گلی تک تو ہم نے دیکھا پھر نہ جانے کدھرگیا وہ
No comments:
Post a Comment