عشق میں جس کے یہ احوال بنا رکھا ہے
اب وہی کہتا ہے اِس وضع میں کیا رکھا ہے
حالِ دل کون سنائے اسے ، فرصت کس کو
سب کو اُس آنکھ نے باتوں میں لگا رکھا ہے
دل بُرا تھا کہ بھلا ، کام وفا کے آیا
یار جانے بھی دے ، اِس بحث میں کیا رکھا ہے
حسن چاہے جسے ، ہنس بول کے اپنا کرلے
دل نے اپنوں کو بھی بیگانہ بنا رکھا ہے
تیرے آنے کی خبر پا کے ابھی سے دل نے
شکوہ کو اور کسی دن پہ اُٹھا رکھا ہے
No comments:
Post a Comment