Friday, October 29, 2010

دل کبھی صورت

دل کبھی صورت حالات سے باہر نہ گیا
میں محبت میں بھی اوقات سے باہر نہ گیا

بات سوچی نہ کوئی تیری بات سے پہلے
تذکرہ کوئی بھی تیری ذات سے باہر نہ گیا

اِک تو کہ تیرا تعلق ہے جہاں بھر سے
اِک میں جو کبھی تیری ذات سے باہر نہ گیا

معاملہ آپہنچا ہے جُدائی کا مگر
میں پہلی ہی ملاقات سے باہر نہ گیا

چلنے نہیں دیتا


کوئی بھی اختیار اچھا بُرا چلنے نہیں دیتا
وہ سب کچھ کر رہا اور پتہ چلنے نہیں دیتا

اندھیرا بھی ہے ، پتوں پر پسینہ بھی مگر اُس نے
سحر روکی ہوئی ہے اور ہوا چلنے نہیں دیتا

کبھی اٹھوا رہا ہے سارا سودا ہی دکانوں سے
کبھی بازار میں سکہ مرا چلنے نہیں دیتا

وہاں درپیش ہے سارے سمندر کا سفر ہم کو
سفینے کو جہاں خود ناخدا چلنے نہیں دیتا

ہمارے ہاتھ ہی اُس نے نہیں باندھے ہوئے وہ تو
کسی کی بھی یہاں اپنے سوا چلنے نہیں دیتا

کھڑا ہوں اور مرے آگے رکاوٹ بھی نہیں کوئی
جو سچ پوچھیں تو مجھ کو راستہ چلنے نہیں دیتا

Thursday, October 28, 2010

چلا جاؤں گا


تیری مشکل نہ بڑھاؤں گا ، چلا جاؤں گا
اشک پلکوں میں چھپاؤں گا ، چلا جاؤں گا

مدت بعد آیا ہوں پرانے گھر میں
خود کو جی بھر کے رُلاؤں گا ، چلا جاؤں گا

اِن گلیوں سے تو مجھکو نہیں لینا کچھ بھی
بس تمہیں دیکھنے آؤں گا ، چلا جاؤں گا

کچھ دیر دہلیز پہ اپنی پڑا رہنے دو
جیسے ہی ہوش میں آؤں گا ، چلا جاؤں گا

یہ جنگ نہیں جیتنی مجھے اپنے لئے
تخت پہ تم کو بٹھاؤں گا ، چلا جاؤں گا

جانے دے


اپنی آنکھوں کے سمندر میں اُتر جانے دے
تیرا مجرم ہوں مجھے ڈوب کے مَر جانے دے

زخم کتنے تیری چاہت سے ملے ہیں مجھکو
سوچتا ہوں کہوں تجھ سے ’’مگر‘‘ جانے دے

عجیب شخص


وہ عکس بن کے میری چشمِ تر میں رہتا ہے

عجیب شخص ہے ، پانی کے گھر میں رہتا ہے

وہی تو میری شبِ غم کا ایک پیامبر ہے

وہ ایک ستارہ جو چشمِ سحر میں رہتا ہے

جو میرے ہونٹوں پہ آئے تو گنگناؤں اُسے

وہ شعر بن کے بیاض نظر میں رہتا ہے

گزرتا وقت میرا غم گسار کیا ہوگا

وہ خود تعاقب شام و سحر میں رہتا ہے

میرا ہی رُوپ ہے تُو غور سے اگر دیکھے

بگولہ سا جو تیری راہ گزر میں رہتا ہے


وہ کون ہے جس کی تلاش میں بسمل

ہر ایک سانس میرا اب سفر میں رہتا ہے

فراز


بکھر رہے ہیں میری زندگی کے تمام ورق
نہ جانے کب کوئی آندھی اُڑا کے لے جائے

مَیں کب تک دوسروں کے دُکھ سنبھال کے رکھون فراز
جس جس کے ہیں وہ نشانی بتا کے لے جائے

کیا لینا


ریگزاروں میں بگولوں کے سوا کچھ بھی نہیں
سایۂ ابرگریزاں سے مجھے کیا لینا

بُجھ چکے ہیں میرے سینے میں محبت کے کنول
اب تیرے حسن پیشماں سے مجھے کیا لینا

نہیں کرتا


مجھے معلوم ہے آدابِ جوانی
مَیں آج بھی اوروں کو نصیحت نہیں کرتا

اُس سے بڑھ کر کوئی نہیں منافق قتیل
جو ظلم تو سہتا ہے مگر بغاوت نہیں کرتا

اچھی صورت


اچھی صورت بھی کیا بُری شے ہے
جس نے ڈالی بُری نظر ڈالی

ضروری ہوگیا ہے


جو بس میں ہے وہ کرجانا ضروری ہوگیا ہے
تیری چاہت میں مَر جانا ضروری ہوگیا ہے

درختوں پر پرندے لوٹ آنا چاہتے ہیں
خزاں رُت کا گزر جانا ضروری ہوگیا ہے

ہمیں تو کسی اگلی محبت کے سفر میں
نہیں جانا تھا پر جانا ضروری ہوگیا ہے

مَیں تجھے اپنے ہر دُکھ سے بچانا چاہتا ہوں
تیرے دل سے اُتر جانا ضروری ہوگیا ہے

سبھی بجھ گئے سبھی مَر گئے


وہ جو شوق تھے جو تھے ولولے ، سبھی بجھ گئے سبھی مَر گئے
میرے عشق کے کئی سلسلے ، سبھی بجھ گئے سبھی مَر گئے

وہ چاند دل میں اُجالنا ، وہ کمند تاروں پہ ڈالنا
وہ کمال کے میرے حوصلے ، سبھی بجھ گئے سبھی مَر گئے

وہ جو گیسوؤں کی بہار تھی ، وہ جو آنچلوں کی قطار تھی
وہ جو جگنوؤں کے تھے قافلے ، سبھی بجھ گئے سبھی مَر گئے

جو تھا اِک اظہر خوش ندا ، وہ جو بات کہتا تھا بَر ملا
وہ جو اُس کے ہوتے تھے طنطنے سبھی بجھ گئے سبھی مَر گئے