کوئی بھی اختیار اچھا بُرا چلنے نہیں دیتا
وہ سب کچھ کر رہا اور پتہ چلنے نہیں دیتا
اندھیرا بھی ہے ، پتوں پر پسینہ بھی مگر اُس نے
سحر روکی ہوئی ہے اور ہوا چلنے نہیں دیتا
کبھی اٹھوا رہا ہے سارا سودا ہی دکانوں سے
کبھی بازار میں سکہ مرا چلنے نہیں دیتا
وہاں درپیش ہے سارے سمندر کا سفر ہم کو
سفینے کو جہاں خود ناخدا چلنے نہیں دیتا
ہمارے ہاتھ ہی اُس نے نہیں باندھے ہوئے وہ تو
کسی کی بھی یہاں اپنے سوا چلنے نہیں دیتا
کھڑا ہوں اور مرے آگے رکاوٹ بھی نہیں کوئی
جو سچ پوچھیں تو مجھ کو راستہ چلنے نہیں دیتا
No comments:
Post a Comment