Thursday, December 2, 2010

Aesa Thaa

گلے ملا نہ کبھی چاند، بخت ایسا تھا

ہرا بھرا بدن اپنا درخت ایسا تھا

ستارے سِسکیاں بھرتے تھے ، اوس روتی تھی

فسانۂ جگرِ لخت لخت ایسا تھا

ذرا نہ موم ہُوا پیار کی حرارت سے

چٹخ کے ٹوٹ گیا، دل کا سخت ایسا تھا

یہ اور بات کہ وہ لَب تھے پھول سے نازک

کوئی نہ سہہ سکے ، لہجہ کرخت ایسا تھا

اِدھر سے گزرا تھا مُلکِ سخن کا شہزدہ

کوئی نہ جان سکا، سازورخت ایسا تھا

No comments:

Post a Comment