Thursday, December 2, 2010

main zinda hoon

میرے قاتل کو پکارو کہ میں زندہ ہوں ابھی

پھر سے مقتل کو سنوارو کہ میں زندہ ہوں ابھی

یہ شبِ ہجر تو ساتھی ہے میری برسوں سے

جاؤ سو جاؤ ستارو کہ میں زندہ ہوں ابھی

یہ پریشاں سے گیسو نہیں دیکھے جاتے

اپنی زلفوں کو سنوارو کہ میں زندہ ہوں ابھی

لاکھ موجوں میں گِرا ہوں مگر ڈوبا تو نہیں

مجھ کو ساحل سے پکارو کہ میں زندہ ہوں ابھی

No comments:

Post a Comment