Friday, December 3, 2010

Utar Jaey Gaa

آنکھ سے دور نہ ہو دل سے اتر جائے گا
وقت کا کیا ہے ، گزرتا ہے گزر جائے گا

اتنا مانوس نہ ہو خلوتِ غم سے اپنی
تو کبھی خود کو بھی دیکھے گا تو ڈر جائے گا

تم سرِ راہِ وفا دیکھتے رہ جاؤ گے
اور وہ بامِ رفاقت سے اتر جائے گا

زندگی تیری عطا ہے تو یہ جانے والا
تیری بخشش تری دہلیز پہ دھر جائے گا

ڈوبتے ڈوبتے کشتی کو اچھالا دے دوں
میں نہیں، کوئی تو ساحل پہ اتر جائے گا

ضبط لازم ہے مگر دکھ ہے قیامت کا فراز
ظالم اب کے بھی نہ رو
ۓ گا تو مر جائے گا

No comments:

Post a Comment