Thursday, December 2, 2010

Phir Bhi

جمالِ رُخ پہ ٹھہرتی نہیں نظر پھر بھی

اُتاری جاتی ہے ان کی نظر گزر پھر بھی

کوئی ٹھکانہ ہے صیّادبد گمانی کا

قفس میں قید ہوں کاٹے ہیں میرے پر پھر بھی

ملال کر دلِ مضطر نہ ان کے جانے کا

خدا نے چاہا تو آئیں گے وہ ادھر پھر بھی

وہ کہہ رہے ہیں کل آئیں گے ہم بتا تو دیا

لگا رکھی ہے یہ تم نے اگر مگر پھر بھی

ہزار عیش قفس میں سہی وہ بات کہاں

کہ اپنا گھر ہوا کرتا ہےاپنا گھر پھر بھی !

قمر یہ مانا کہ تم احتیاط برتو گے!

کسی کے رخ سے جو ٹکرا گئی نظر پھر بھی

No comments:

Post a Comment