Thursday, December 2, 2010

Meri Aadhi umar Guzar

یونہی بے یقیں یونہی بے نشاں، میری آدھی عمر گذر گئی

کہیں ہو نہ جاؤں مَیں رائیگاں، میری آدھی عمر گذر گئی

کبھی سائباں نہ تھا بہم، کبھی کہکشاں تھی قدم قدم

کبھی بے مکاں ، کبھی لامکاں، میری آدھی عمر گذر گئی

تیرے وصل کی جو نوید ہے ، وہ قریب ہے کہ بعید ہے

مجھے کچھ خبر تو ہو جانِ جاں، میری آدھی عمر گذر گئی

کوئی طعنہ زن میری ذات پر ،کوئی کندہ زن کسی بات پر

پائے دلنوازیٔ دوستاں، میری آدھی عمر گذر گئی

کبھی ذکرِ حرمت و حرف میں ، کبھی فکرِ آمدو صرف میں

یونہی رزق و عشق کے درمیاں، میری آدھی عمر گذر گئی

کبھی مجھ کو فکرِ معاش ہے ، کبھی آپ اپنی تلاش ہے

کوئی گُر بتا میرے نکتہ داں، میری آدھی عمر گذر گئی

اُسے پالیا اُسے کھو دیا ، کبھی ہنس دیا کبھی رو دیا

بڑی مختصر سی ہے داستاں، میری آدھی عمر گذر گئی

کہاں کائنات میں گھر کروں، مَیں یہ سوچ لوں تو سفر کروں

اِسی سوچ میں تھا کہ ناگہاں، میری آدھی عمر گذر گئی

No comments:

Post a Comment